adv

Wednesday, January 28, 2015

Barati ki Suhag Raat

دوستو آج میں ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے یہ کہانی لکھ رہا ہوں امید کرتا ہوں آپ کو پسند آئے گی۔
بات کچھ سال پہلے کی ہے جب میں 18 سال کا تھا اور بارویں میں پڑھتا تھا۔
ایک بار میں اپنے کچھ دور پار کے رشتہ داروں کی شادی پر کراچی گیا۔ میں چونکہ بہت کم جاتا ہوں اسی لئے زیادہ لوگوں کو جانتا نہیں تھا۔
خیر شادی والے گھر میں پہنچ کر پتہ چلا کہ شادی بالکل ساتھ والے گھر میں ہو رہی ہے اور تقریبا” سارے مہمان کامن ہیں۔ دولہا اور دلہن آپس میں کزن ہیں۔ جبکہ دولہا میرا بھی کزن تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ کافی افراتفری مچی ہوئی ہے اور لوگ آگے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔ یعنی وہی سین جو عام طور پر شادیوں مین ہوتا ہے۔
میں کچھ دیر تو ادھر ادھر وقت ضائع کرتا رہا پھر اٹھ کر فضول میں گھومنے لگا۔ میری یہ حالت دیکھ کر ایک آنٹی جو پتہ نہیں میری کیا لگتی تھیں کو رحم آ گیا۔
انھوں نے ایک مجھے لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا کہ وہاں میرے کافی ہم عمر تھے۔
یہاں آ کر لگا کہ جنت میں آ گیا ہوں کہ جہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں بکھری ہوئی ہیں۔
کوئی ڈانس پریکٹیس کر رہی ہے تو کوئی کپڑے استری کوئی سامان پیک کر رہی ہے تو کوئی میک اپ۔کوئی نہا رہی ہے تو کپڑےٹرائی کر رہی ہے۔ غرض بہار ہی بہار تھی۔
دلہن کو دیکھا تو اپنی قسمت پہ رونا آیا مگر پھر دل نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں
"چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں"
یہاں مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ مجھے اپنی خوش قسمتی اور پرسنالٹی پر فخر ہوا، جو جلد ہی ختم ہوا کیونکہ یہ سب لڑکیاں کسی لڑکے کو ترس رہی تھیں۔
مجھ سے پوچھا کہ موٹر سائیکل چلا لیتے ہو؟
میں نے فخر سے کہا: ایسا ویسا پورے لاہور میں مجھ سے اچھا بائیکر پیدا نہیں ہوا۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ بڑے بول فورا” سزا پاتے ہیں۔ میرا ٹیسٹ ایسے لیا گیا کہ شام تک گانڈ بائیک سے علیحدہ نہیں ہوئی۔
گھر سے بازار تک کا راستہ اس اتنی بار دیکھا کہ ھاتھ کی لکیروں کی طرح یاد ہو گیا۔
شام تک لڑکیوں نے میری وہ حالت کی جو ریپ کے بعد ہوتی ہے۔ میں بیٹھنے تو کیا لیٹنے کے قابل نہ رہا۔
آخر کار ایک بزرگ خاتون کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے چند لڑکیوں کے ساتھ دولہا دولہن کا کمرا سجانے بھیجا۔ چند خود کو بہت سمارٹ سمجھنے والی لڑکیاں میرے ساتھ آئی اور مجھے حکم دینے لگیں ۔ میں پھولوں کی لڑیاں لگانے لگا۔
اتنے میں شور مچ گیا کہ تیار ہو جاؤ مہندی کی رسم کے لئے۔
لڑکیاں وہاں سے غائب ہونے لگیں تو میں نے شور مچا دیا۔ آخر کار میں یہ مزدوری جن کی قربت کے لئے کر رہا تھا وہی اڑن چھو ہو رہی تھیں۔
میرے شور مچانے پر انھوں نے ایک لڑکی جو ان کی کتاب میں بچی تھی میرے پاس چھوڑی اور دلہن کے گھربھاگ گئیں۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح
یہ سوچ کہ میں نے اس بچی کا آنکھوں سے پوسٹ مارٹم کیا۔
پہلے تو اسے بچی سمجھنے والوں کی عقل اور آنکھوں پر شک کیا۔
اس کی عمر 15-16 سال تھی دبلی پتلی، سانولا رنگ، شادی کی مناسبت سے شوخ بلکہ کسی قدر سیکسی ٹراؤزر اور شرٹ میں تھی۔ جو چیز سب سے خاص تھی اس میں وہ تھا اس کا چہرا جو کسی طرح بھی اس کو اس کی عمر کے مطابق ظاہر نہیں کر رہا تھا۔
اس کے چہرے پر بھی معصومیت نہیں تھی۔

میں نے اس سے نام ارو کلاس وغیرہ پوچھا۔
”میرا نام سارا ہے۔ میں نائیتھ میں پڑھتی ہوں۔” وہ ذرا شرما کے بولی۔
"سارا میں فیصل ہوں اور سیکنڈ ائیر میں پڑھتا ہوں" میں بولا۔

"سارا میرا خیال ہے کہ اب بس کی جائے کیونکہ میں بہت تھک گیا ہوں۔"
وہ بولی: "نہیں باجی نے مجھ سےکہا ہے لگوا کے آنا۔"
میں نے کہا: میرا کیا قصور ہے مزے کوئی لے گا کریڈٹ وہ تھماری باجیاں اور محنت میری لگ رہی ہے۔
وہ ہنس دی: "لگانا تو پڑے گا۔"
میں نے کہا :" اور تمھیں کیوں چھوڑ گئیں ہیں یہاں میری نگرانی کے لئے۔"
"نہیں اس لئے کہ کوئی کام ہو تو کروا لوں مگر ہو وہ جو لڑکیوں کے کرنے والا ہو"۔وہ شوخ ہو کر بولی۔
میں نے کہا: کوئی نہیں ابھی تمھیں لڑکیوں کے کرنے والا کام کہوں گا اور تم مکر جاؤ گی۔
وہ بولی: بالکل نہیں پرامس میں نہیں مکروں گی۔
مجھے لگا کہ جیسا اچانک ایک مچھلی خود ہی کانٹے میں آ گئی ہے۔ اب میں نے اسے اسی نیت سے دیکھا اور اسے ہر لحاظ سے چودنے کے قابل پایا۔
میں نے اب سوچ کے جواب دیا:چلو یہ بھی ٹرائی لیتے ہیں مگر یاد رکھنا اگر مکر گئی تو میں سمجھوں گا کہ تم میں وہ دم نہیں اور تم لڑکی ہی نہیں۔
اب میں نے اسے کہا کہ دروازہ بند کر دو اور یہاں میرے قریب آ جاؤ۔ میں کام بھی کرتا رہا اور اس سے باتیں بھی۔
میں نے اس سے پوچھا : سارا پتہ نہیں لوگ یہ سیج کیوں سجاتے ہیں ہوتا تو بس سونا ہی ہے نا؟
وہ بولی: نہیں یہ یادگار رات ہوتی ہے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔
اس میں یادگار والی کیا بات ہوتی ہے؟
وہ ذرا کنفیوز ہو کر بولی : بس ایسے ہی۔
الٹا یہ رات تو تکلیف دے سکتی ہے۔
وہ بولی: کیسے
میں نے کہا: ارے بھئی سردی لگ سکتی ہے پھولوں سے دلہن کو کوئی کانٹا چب سکتا ہے۔
وہ بولی: کانٹا کیسے چبے سکتا ہے یہاں ایسا تو کوئی کانٹا نہیں۔
میں بولا: ڈئیر جب کپڑے بہنے بغیر ان پھولوں پر سونا ہو تو سردی اور کانٹا دونوں ہو سکتے ہیں۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ میں اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا یہ وہ حالت تھی کہ وہ سوچ رہی تھی کہ اس موضوع کو آگے چلاؤں یا نہیں کیوں کہ نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔
میں پوچھا: کیا ہوا کیا تمھیں نہیں پتہ تھا کہ سہاگ رات میں کیا ہوتا ہے؟
وہ آہستہ سے بولی: نہیں۔
مجھے اپنی کامیابی صاف نظر آگئی۔ اس کا نہ جانا اور اس کو ختم نہ کرنا مجھے سب بتا گیا تھا۔
سوری یار! مجھے نہیں معلوم تھا کہ تھمیں نہیں پتہ۔ بس بات ذرا ایسی ہے کہ لڑکیوں کو تو پتہ ہونا چائیے۔ مگر جب وہ بڑی ہو جائیں۔ کچھ عرصے بعد تمھیں کوئی نہ کوئی بتا ہی دے گا۔ میں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے۔
وہ خاموش رہی۔
میں نے اگلا وار کیا: اگر تم وعدہ کرو کہ کسی کو میرا نہیں بتاؤ گی تو میں بتاتا ہوں۔
وہ کچھ نہ بولی مگر اٹھ کر بھی نہ گئی۔ اب میری ھمت فل بڑھ گئی۔
میں نے کہا: سارا تمھیں پیریڈز ہوتے ہیں نا؟
وہ بری طرح چونک گئی جیسے اس سوال کی امید نہ ہو۔ اس نے سر چھکا لیا۔

میں آہستہ سے بولا: اس جگہ کے اندر لڑکا اپنا یہ (میں نے پینٹ کے اوپر سے ھاتھ لگایا) ڈالتے ہیں۔.لڑکی کے اوپر لیٹ کر اندر باہر کرتے ہیں پھر اس سے مزا لیتے ہیں۔
وہ سر جھکا کے زمین دیکھتی رہی اور بولی: میں ابھی آتی ہوں۔
یہاں میں پریشان ہو گیا۔ اگر وہ نہ آئی تو گیم گئی۔
وہ واپس آ گئی تو اس طرح بیٹھ گئی۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں جن میں بعض ایسے فلمی سین جس میں سیکس تھا وہ اور ایسی دوسری باتیں کرنے لگا۔
اب وہ بھی مجھ سے اس متعلق کچھ کچھ پوچھنے لگی جیسے درد تو نہیں ہوتا۔ یہ کتنا لمبا ہوتا ہے وغیرہ۔
اتنے میں لائٹ چلی گئی۔ میں اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس کے جسم پر ھاتھ رکھا تو وہ ذرا ذرا کانپ رہا تھا۔
"یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟"
میں بولا: وہ جو لڑکی ہی کروا سکتی ہے۔
وہ بولی: کوئی آ جائے گا۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد ایک آنٹی نے مجھے کہا کہ باہر آ جاؤ اند کیا کر رہے ہو۔ میں کہا کہ اسی بہانے ذرا آرام کر لیتا ہوں۔ آپ بس ذرا ایک کب چائے بھجوا دیں۔
دس منٹ بعد وہ چائے لیکر آئی۔ میں نے چائے لے لی اور کہا: سارا یہاں میرے پاس آ جاؤ۔
وہ بولی: نہیں کوئی آ جائے گا۔ سب باہر ہی ہیں۔
میں نے کہا: میں انتظار کر رہا ہوں تم آؤ ذرا دیکھ بھال کے ،یہاں اندھیرا ہے کوئی نہیں آئے گا۔
وہ چلی گئی اور 5 منٹ بعد یہ آ گئی۔ دروازہ اندر سے بند کر بیڈ کے قریب آ گئی۔
میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔وہ ذرا سا کسمسائی مگر کچھ ارو نہیں کیا۔
میں نے سیدھا اپنا ھاتھ اس کی کنٹ پر رکھ دیا جو حسب توقع گیلی تھی۔
میں نے اپنا ھاتھ اس کے ٹراؤزر کے اندر ڈال دیا
اس کی کنٹ کے دونوں ہونٹوں کو رگڑنے لگا۔
اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا مگر ہٹایا نہیں۔میں اس کے چہرے کو چومتا بھی رہا اور اس کی کنٹ مسلتا بھی رہا۔
اتنے میں کوئی کھٹکا ہوا اور ہم دونوں چونک کر علیحدہ ہوگئے۔ وہ فورا" بیڈ کے دوسری طرف کارپٹ پر لیٹ گئی۔ اس کی امی اندر آئی اور پوچھا:بیٹا سارا تو یہاں نہیں ہے؟
میں نے کہا: نہیں آنٹی وہ تو چائے دے کر چلی گئی شاید وہاں دلہن کے گھر گئی ہو۔
وہ بولیں؛ بیٹا ذرا بلا آؤ اس نے کپڑےبھی پہننے ہیں۔
ان کے جانے کے بعد وہ بھی جلدی میں باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر میں لائٹ بھی آ گئی۔ مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔ سب عورتیں لڑکی والوں کے گھر چلی گئی۔
یہاں آنٹی نے مجھے کہا کہ میں سیج تیار کروں میرا کھانا وہ بھجوا دیں گی۔
میں اکیلا کام میں جت گیا۔
سارا میرا کھانا لے کر آئی۔
میں نے اسے کہا کہ وہ نظربچا کے آ جائے مگر وہ نہ مانی۔
آخر ایک بجے جب میں پوری طرح مایوس ہو چکا تھا وہ آ گئی۔اس کے ساتھ اس بہن اور بھائی بھی تھے۔ وہ انھیں نیچے ایک کمرے میں سلا کر میرے پاس آ گئی۔
تقریب اپنے پورے عروج پر تھی مرد باہر قناتوں میں تھے اور عورتیں اندر گھر میں۔ میرے پاس ٹائم کی کمی نہیں تھی کم از کم 2 گھنٹے تھے پھر بھی کوئی بھی آ سکتا تھا۔
آخر میں نے حل یہ نکالا کہ کھڑکی کھولی اور باہر نکل کے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ اندر آ کر لائٹ آف کر دی اور سارا کو لیکے بیڈ کے نیچے لیٹ گیا۔
وہ کافی ڈری ہوئی تھی اور مجھے بہت جلدی تھی اس کی مارنے کی۔
ایک بار میں اس کی سیل کھول لیتا پھر میں بعد میں بھی اس کو تسلی سے چود لیتا۔
میں نے اس کی شلوار اتار دی اور اپنی پینٹ بھی گھٹنوں تک اتار دی۔
اس کی کنٹ بالکل کنواری تھی اور اسی بات کا مجھے ڈر تھا۔
میں نے آرام سے اپنی انگی اس کی کنٹ میں ڈالی۔
تھوڑے سے تردد سے انگی اندر چلی گئی۔ وہ ذرا ذرا سی آہیں بھرنے لگی۔
میں نے اس کی قمیض گردن تک اوپر کر دی اور اسے سیدھا لٹا کے اس اوپر لیٹ گیا۔
میرا وزن اس سے کافی زیادہ تھا مگر وہ پرداشت کر گئی۔ میں نے اپنا لن کنٹ رکھا تو وہ بوبی؛ فیصل درد تو نہیں گا؟
میں نے کہا: ہلکہ سا ہو گا مگر زیادہ نہیں۔
اب میں اپنا لن اس کے اندر دھکیلا وہ چلا اٹھی: پلیز نکالو مجھے درد ہو رہا ہے پلیز بھائی پلیز مجھے درد ہو رہا ہو۔ امی ۔ ۔ ۔ ۔ پلیز فیصل پلیز۔
مجھ پر اب چودائی سوار تھی۔ میں بجائے نکالنے کے اور اندر ڈالا۔
وہ اب رونے لگی مگر میرے وزن اور بیڈ کے نیچے سے کوئی جائےفرار نہیں تھی۔
وہ اپنا خون دیکھ کر رونے لگی۔ مگر یہ بھی شکر تھا کہ خون کا بیڈ کے نیچے کارپٹ پر تھا۔

دو تین منٹ کے بعد میرا لن آسانی سے جانے لگا اور اس کی مزاحمت بھی کم ہو گئی۔
میں نے اس کی ٹانگیں کھول دی اور ذرا تیزی سے چودنے لگا۔ وہ اور زور سے رونے لگی۔ میں نے اس کے منہ پر ھاتھ رکھ دیا۔
اس کی ٹائٹ کنٹ اور کچھ سیکس پوزیشن کی وجہ سے میں 6-7 منٹ بعد ہی چھوٹ گیا۔
کچھ دیر بعد میں بیڈ کے نیچے سے نکل آیا کوئی 2-3 منٹ بعد وہ بھی آ گئی۔
میں نے اسے چومنا چاہا تو اس نے جھٹک دیا۔
" یہ تھوڑا درد تھا۔ مجھے کتنا درد ہوا ہے معلوم ہے تمھیں۔" میں جا رہی ہوں" ۔
وہ مجھے چھوڑ کر جانے لگی مگر کیسے جاتی دروازہ تو باہر سے بند تھا۔
میں نے اسے روک لیا۔
دیکھو سارا ! میری جان ایسا کرنا پڑتا ہے اگر میں نکال لیتا تو تم کبھی بھی نہ ڈلوا سکتی۔ اب دیکھنا اگلی بار جب ہم ایسا کریں گے تو کتنا مزا آئے گا۔

وہ بھڑک کے بولی: اب میں نہیں کرواؤں گی۔
میں نے کہا: کروانا تو تمھیں کرنا پڑے گا ورنہ کہیں میری زبان سلپ ہو گئی تو۔ ۔ ۔ ۔

وہ ڈر گئی اور یہی میں چاہتا تھا۔
میں نے کہا: کل رات پھر مین تمھیں اسی طرح چودوں گا۔مرضی سے کرو گی تو مزا آئے گا اور اگر زبردستی کرنا پڑا تو جتنا درد آج ہوا ہے اس زیادہ ہوگا۔
یوں سمجھو میں اس کو پھاڑ دوں گا۔

وہ چلی گئی۔ میں کل کے لئے پلان بنانے لگا۔



سب سے پہلے تو پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔ یہ ایک تجربہ ہی تھا اچھا ہوا کہ آپ سب کو محظوظ کر گیا۔
ایک بات میں اور کہنا چاہوں گا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
مجھے اب اگلے دن کے لئے کسی ایسی جگہ کا انتظام کرنا تھا جہاں میں پوری طرح سے اس کو چود سکوں۔ میرے ذہہن میں ایسی کوئی جگہ نہیں آ رہی تھی۔
خیر پوری رات سوچتے گزری۔سارا سے میں نے ایک دو مرتبہ بات کرنی چاہی تو وہ طرح دے گئی۔ مجھے غصہ تو آیا مگر مجھے یہ یقین تھا کہ وہ آج رات پھر میرے نیچے ضرور ہو گی۔
صبح تیاری ہوئی اور شام کو 7 بجے بارات گھر سے ہال روانہ ہوئی۔
ہال میں مجھے سارا کافی تیار ملی اس نے انڈین سٹائل کا گھاگرہ اور چولی پہن رکھا تھا۔ کمی تھی تو بس اس کی انڈینز کی طرح جسم ننگا نہیں تھا۔ میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔
یہیں میں ایک بڑی غلطی کر گیا۔ جن لڑکیوں کے پیچھے کل میں نے قید بامشقت جھیلی تھی آج میں سارا کے چکر میں ان کو نظر انداز کر گیا تھا۔
شاید میری نظروں کا تعاقب کر کے ان میں سے سارا کی کزن نائلہ جو دلہن کی بہن تھی، وہ مشکوک ہو گئی تھی۔
بارات پہنچ گئی نکاح ہوا اور کھانا شروع ہوا۔میری بھوک پیاس تو صرف سارا تھی۔ سارا جو میرے ساتھ بات تک نہیں کر رہی تھی۔
میں اسی کشمکش میں تھا کہ نورین (کزن) میرے پاس آئی : فیصل میرے پیارے بھائی! پلیز ذرا گھر سے میرے لئے میرے کپڑے لے آؤ۔ میں نے ابھی اس سوٹ میں ڈانس کرنا ہے۔پلیز فیصل۔

میں ایک تو بھائی پر بدمزا ہوا اوپر سے اس ے وجہ کی مزدوری سے۔میں نے کہا: یار میں تمھارے کپڑے کہاں ڈھونڈوں گا۔
"تم ایسا کرو ننھی کو لے جاؤ۔"اس نے اپنی بہن کا نام لیا۔
"کمال ہے ننھی کو لے جا کر کیا کروں گااور آنے جانے میں کتنا ٹائم لگئ گا پتہ بھی ہے۔"
"تم فکر مت کرو ابھی لیڈیز کے لئے کھانا نہیں کھولا ہے۔کھلے گا کھائیں گی پھر مووی بنے گی۔ لاسٹ میں دولہا ادھر آئے تو ہم ڈانس کریں گی۔" وہ بولی۔
"اچھا پھر ایسا کرو سارا کو بھیج دو اسے ہی سمجھا دو کیا منگوانا ہے۔"مجھے بروقت ترکیب سوج گئی۔
وہ خوش ہوگئی۔ سارا کو بلایا تو وہ انکارکرنے لگی۔اس نے مجھے آنکھ سے کچھ اشارہ کیا جو مجھے سمجھ نہ آیا۔ میں سمجھا وہ کہنا چاہ رہی ہے کہ میں آج نہیں چدواؤں گی۔
خیر ہم دونوں گھر آئے۔ پہلے کپڑے اٹھائے۔ گھر میں صرف ایک نوکرانی تھی جو کچن میں برتن سمیٹ رہی تھی۔ اس نے ہمارے آنے جانے کا کوئی رسپانس نہیں لیا۔
میں سارا کو لے کر اوپر ایک کمرے میں آ گیا۔
فیصل مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز چلو کوئی آ جائے گا۔وہ کمرے میں آتے ہی رونے والی ہو گئی۔
فیصل وہ باجی کو شک ہو گیا ہے۔پلیز مت کرو" مین نے اسے بہانہ سمجھا۔

میں نے اس کی چولی اتار دی اور اسے بیڈ پر لٹا دیا۔ اس نے نیچے 32 سائز کا برا پہنا ہوا تھا۔ کیونکہ اس کے ممے اسی سائز کے تھے۔
اگلے دو منٹ میں میں نے اس کا گھاگرہ اور پائجامہ بھی اتار دیا۔اس نے اپنی ٹانگیں بند کر لیں اور اپنی کنٹ کو ھاتھوں سے چھپا لیا۔
میں نے اپنے کپڑے اتارے اور کنڈوم چڑھایا۔
اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ اس کے منہ میں اپنی زبان ڈال دی اور اپنے ھاتھوں سے اس کے مموں اور کنٹ کو سہلانے لگا۔
اب وہ بھی کسی حد تک ریلیکس ہو گئی تھی۔ مگر ابھی بھی وہ میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔میں نے دس منٹ اسی طرح اس کے مموں ہونٹوں اور جسم کو چومنے میں لگائے۔
وقت کی کمی اور پکڑے جانے کے چانسز آج بھی بہت تھے۔ اسی لئے میں مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس کی ٹانگیں کھول کر لن اس کی کنٹ پر رگڑا۔
وہ بولی: پلیز آرام سے ڈالنا۔ میں کوئی بات نہیں کہوں گی بس مجھے درد مت دینا اورخون مت نکالنا، میں مرضی سے کروا رہی ہوں۔
میں نے اس سے کہا: تم اپنی ٹانگیں جتنی کھول سکتی ہو کھول لو۔میں آرام سے ڈالوں گا۔
وہ کل کی چھمکی کو لے کر ڈر رہی تھی۔
میں نے انتہائی آرام سے اندر ڈالا۔ وہ ذرا سے کراہی اور مجھے تھام لیا مگر کل کی طرح چیخی نہیں۔ میں نے آہستہ آہستہ پورا لن اندر ڈال دیا۔
جب پورا اندر چلا گیا تو میں پوچھا: درد تو نہیں ہو رہا؟
وہ بولی: نہیں مگر پلیز آرام سے ہلانا
میں بالکل آرام سے لن اندر باہر کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں اسی طرح اس کو آرام آرام سے چودتا رہا۔ پھر میں نے اپنی رفتار ہلکی سی تیز کر دی.
اب وہ آنکھیں میچے گہری سانسیں لینے لگی۔ کبھی کبھی وہ اپنی کنٹ کو ٹانگوں کی مدد سے کس لیتی مگر جب میں دو چار زور سے جھٹکے دیتا تو وہ پھر ڈھیلی ہو جاتی۔
اب میں چھوٹنے کے قریب تھا۔ میں لن نکال لیا۔لن کو ذرا ذرا سا ھاتھ سے تھام کر اس کی کنٹ سے ٹکرانے لگا۔
دو منٹ بعد جب میں ذرا نارمل ہو گیا تو میں نے دوبارہ ڈال دیا۔ وہ پھر کسمسائی۔: فیصل ڈالتے وقت درد ہوتا ہے۔
میں نے کہا: بس جاں آخری بار ہے۔
اب میں نے اس کی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیں اور پوری طاقت سے اسے چودنے لگا۔ وہ چلا اٹھی: فیسب پلیز مجھے اس طرح درد ہوتا ہے۔
مگر میں اپنے آکری جھٹکے زرزدار لگانا چاہتا تھا۔میں اس کے اوپر اس طرح لیٹ گیا کے اس کے دونوں پیر میری کمرپر تھی۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو چوما اور اس کو بےدردی سے چودنے لگا۔
اس نے بھی واویلا بند کر دیا اور مجھے کس کہ پکڑ لیا۔
اگلے 3 منٹ میں فارغ ہو گیا۔
میں نے کنڈوم اتارا۔ ٹشو سے لن صاف کیا اور کپڑے پہں کے باتھ روم چلا گیا۔
باتھ سے واپس آیا تو ہکا بکا رہ گیا۔ کمرے میں اس کی کزن نائلہ کھڑی تھی اور اس کے ھاتھ میں میرا والٹ اور کنڈوم کا خالی ریپر تھا۔ باقی دو کنڈوم بھی بیڈ پر پڑے تھے۔ سارا رو رہی تھی۔اس نے دونوں چیر بیڈ پر پھینک دیں۔
اس نے مجھے کچھ نہیں کہا اور کمرے سے نکل گئی۔
میں نے سارا کو وہیں چھوڑا اور ہال آ گیا۔
ہال آ کر میں کافی پریشان رہا۔ شادی کی جو خوشی تھی اب وہ غم میں بدل گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد سارا اور نائلہ بھی مجھے دکھائی دے گئیں۔
سارا کا اترا ہوا چہرا مجھے دور سے دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے نائلہ کے سامنے جانے سے گریز کیا۔ شادی کافنکشن صبح کے تین بجے تک چلا۔
میں بھی ایک کمرے میں آ کر سو گیا۔ تھوڑی دیرمیں روشنی ہو گئی مگر سب گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے تھے۔ میں باہر آ گیا۔ قریب ہی ایک پارک تھا وہاں جا بیٹھا وہیں چائے پی۔ 7 بجے کے قریب میں واپس آیا تو گھر میں ہلکی سی چہل پہل تھی جو صرف ان کی تھی جو بچوں والی خواتیں تھیں یا کام کرنے والی۔ مجھے ایک بار پھر چائے مل گئی۔ اتنے میں سارا کچن میں آئی۔میں اس کو دیکھ کر کھل اٹھا، کیونکہ وہی مجھے اصل صورتحال بتا سکتی تھی۔ اس نے منہ ھاتھ دھو کر چائے لی اور مجھے اشارے سے تسلی دی کہ میں ذرا علیحدگی میں ملتی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچن سے اٹھ کر اوپر چھت پر گئی۔ جاتے جاتے میری طرف دیکھا تو میں اس کا اشارہ سمجھ گیا۔ میں بھی آرام سے اس کے پیچھے چل دیا۔
چھت پر آتے ہی میرے گلے لگ گئی اور رونے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اصل بات کی طرف آ گئی۔.
نائلہ نے کل میرا اس کو آنکھوں میں اشارہ بازی کرتے دیکھ لیا تو اس نے سارا کو کریدا۔ سارا کی پریشانی دیکھ کر وہ مشکوک ہو گئی۔ پھر جب ہم دونوں غائب ہو گئے تو اسے مزید شک ہوا۔ نورین سے اسے پتہ چل گیا کہ ہم دونوں گھر گئے ہیں۔ اسی اثناء میں اس نے کسی کو بڑی مشکل سے گھر جانے کو راضی کیا اور گھر آ گئی۔ آنے میں چونکہ وقت لگا اس لئے جب وہ پہنچی تو ہم اپنا کام پورا کر چکے تھے اور ہم دونوں کپڑے بھی پہن چکے تھے۔ مگر بیڈ پر کنڈوم کا ریپر، میرا والٹ اور دو نئے کنڈوم دیکھ کر وہ سب سمجھ گئی۔اس نے مجھے تو کچھ نہیں کہا مگر سارا کو مارا اور اسے دھمکی دی کہ وہ یہ بات سب کو بتا دے گی۔
میں یہ سب سن کر پریشان ہو گیا مگر پھر بھی کچھ حوصلہ تھا۔ میں نے سارا کو تسلی دی اور سونے کو کہا۔ وہ میرے گلے لگی میرے ہونٹوں کو چوم کر چلی گئی۔ میں باہر دھوپ میں اخبار پڑھنے لگا۔ مجھے نیند نہیں آ سکتی تھی کیونکہ یہ ہم پنجابیوں کو بیماری ہے کہ ہم سورج نکلنے کے بعد نہیں سو سکتے۔
مجھے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ سارا پھر آ گئی۔میرے پاس آ کر بولی: نائلہ باجی والوں کے گھر سٹور ہے وہاں آئیں۔
میں چپ چاپ ان کے سٹور میں چلا گیا۔ سٹور میں کافی کاٹھ کباڑ بکھرا ہوا تھا اور اس میں ایک بڑی لکڑی کی پیٹی پیچھے دیوار کے ساتھ تھی۔ پیٹی کے اندر ایک پرانا روئی کا گدا پڑا ہوا تھا۔پیٹی اور دروازے کے درمیان کچھ فالتو سامان،ایک میز اور ایک خراب فریج تھا۔
میں سٹور میں داخل ہوا تو اس نے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا لی۔ مجھے پیٹی کے پاس لے آئی اور میرے گلے لگ کے بولی: کل ولیمے کے بعد آپ چلے جائیں گے، میں آج آخری بار آپ کے ساتھ پیار کرنا چاہتی ہوں۔
میں مسکرا دیا، یہی وہ لڑکی تھی جہ کل چدوانے کو راضی نہیں تھی آج خود جگہ ڈھونڈ کر چدوانا چاہتی ہے،وہ بھی ان حالات میں کے ہم رنگے ھاتھوں پکڑے جا چکے ہیں۔ عورت کو سمجھنا مرد کے بس کی بات نہیں۔
میں نے کہا: ٹھہرو میں کنڈوم لے آؤں۔
وہ بولی: میرے پاس ہے۔
اس نے کل والے دونوں کنڈوم مجھے دے دئیے۔عورت جب چدوانا چاہے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتی ہے۔
میں نے اسے پیٹی میں لٹایا اور اپنی پینٹ گھٹنوں تک اتار کر کنڈوم پہنا۔
اس نے اپنی شلوار اتار دی اور قمیضاوپر کر دی۔اس نے نیچے برا بھی نہیں پہنا تھا۔ میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور اس کی گیلی کنٹ پر لن رگڑنے لگا۔
میں نے اس کے ہونٹوں کو چوما تو وہ بھی اپنی زبان کا استعمال کرنے لگی۔ پھر مین نے اسکے مموں چوسنے شروع کر دئیے۔ کچھ دیر بعد جب میں ڈالنے لگا تو وہ بولی: آج میں خود ڈالوں؟
میں اس کے اوپر سے ہٹ گیا اور اسے اپنے اوپر لے آیا۔ اس نے دو تیں مرتبہ کوشش کی آخر کار ڈال لیا۔ اس نے ہونٹوں سے ایک لطف بھری سسکاری بھری۔
مین نے اسکی ٹانگیں کھول رکھی تھیں مگر وہ صحیح طرح سے ہل نہیں پا رہی تھی۔ ویسے بھی جگہ بہت تنگ تھی۔
ًمیں اسے باہر نکلنا کو کہا۔
میں اسے ننگے فرش پر لٹا کر چودنے لگا۔میں نے سارا سے پوچھا: درد ہو رہا ہے ؟
وہ بولی: نہیں اب مزا زیادہ آ رہا ہے۔ اب پلیز کرتے رہیں۔ درد کی فکر نہ کریں۔
میں آج ساری اگل پچھلی کسر نکال دینا چاہتا تھا۔ اس لئے جب مجھے لگا کہ اب میں چھوٹنے کے قریب ہوں تو میں لن نکال لیا۔
سارا کو کہا : اسے منہ میں لیکر چوسو۔
وہ بولی: مگر یہ تو گندہ ہو گیا ہے، وہ وہاں سے نکالا ہے آپ نے۔
میں نے کنڈوم اتار دیا ، لن ذرا ذرا سا گیلا تھا۔
میں نے کہا: لو آب چوسو۔
پہلے زبان اسکی ٹوپی پر پھیرو پھر آرام سے اپنے منہ میں لے کر چوسو۔
وہ کوشش کرنے لگی، اگلے ایک منٹ میں وہ صحیح طرح چوسنے لگی۔
2-3 منٹ بعد بولی: کچھ عجیب سا ٹیسٹ آ رہا ہے۔
میں نے کہا: بس کرو۔
نیا کنڈوم چڑھایا اور دوبارہ اس کی چوت میں ڈال دیا۔اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا اور اس کی ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ دی۔
اس طرح 5 منٹ تک چودا۔ اس پوزیشن میں میں تھک گیا۔
مجھے ایک میز اور ایک چوکی نظر آ گئی۔
میں نے اسے چوکی پر کھڑا دیا اور میز پر الٹا لٹا دیا۔اس کی قمیض بھی اتار دی اور اسکی گانڈ کے بیچ میں سے لن اسکی کنٹ میں ڈال دیا۔ ایک ھاتھ سے اسکی کمر کو تھاما اور دوسرا ھاتھ نیچے اسکی کنٹ کے ہونٹوں پر رکھا۔ اب میں ایک ھاتھ سے اس کی چوت کو مسلنے لگا اور تیزی سے اسے چودنے لگا۔ اس دہرے مزے سے وہ بے حال ہو گئی اور پوری طرح سے اونچی آواز میں آہیں بھرنے لگی۔
آہ آہ آہ آآآہ ہ ہ آہ آ آ آ آ آ
اس وقت کوئی بھی اسے یوں چدواتے دیکھ لیتا تو ہر گز اسکی عمر اور یہ بات نہ مانتا کہ یہ کل تک کنوری تھی۔
آج میری سیکس پوزیشن کے باعث میں اسے بہت دیر تک چودتا رہا وہ اب تھک چکی تھی تو میں نے سیدھا کر کے اسکی ٹانگیں اپنے کندھون پر رکھ لیں۔ اگلے 5 منٹ میں میں بھی چھوٹ گیا۔
ہم نے کپڑے پہنے اور آرام سے آ کر لان میں بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے۔
اس نے باتوں میں مجھے بتا دیا کے وہ چھوٹی عمر سے جان گئی تھی کہ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے، مگر اس کا کوئی پوائے فرینڈ نہیں تھا۔ سکول بھی صرف لڑکیوں کا تھا اور امی کہیں آکیلے آنے جانے بھی نہیں دیتی تھیں۔

شوق سے زیادہ تجسس تھا کہ آ خر فلموں میں لڑکی ایسے مزے کیسی لیتی ہے اور بعض دفعہ زبردستی چودنے سے روتی ہے اور مر جاتی ہے۔مگر اس کا کوئی پوائے فرینڈ نہیں تھا۔ سکول بھی صرف لڑکیوں کا تھا اور امی کہیں آکیلے آنے جانے بھی نہیں دیتی تھیں۔
وہ ہر گز نہ چدواتی اگر کل میں اسکی چوت کو نہ سہلاتا۔ جب اسکی چوت کو ھاتھ لگا تو اسے اندازہ ہو گیا کہ جب چھونے سے اتنا مزا آ سکتا ہے تو نیچے لیٹ کر مرد کے لن کا کتنا مزا ہو گا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اس کی سہیلیوں میں سے کئی چدوا چکی تھیں اور اس مزے کے قصے سناتی تھیں۔سو دراصل اس کو میں نے نہیں اس کی سہیلیوں کے قصوں اور فلمی سینوں نے چدوایا تھا۔

وہ بار بار کہتی رہی آج میں پوری طرح سے بالغ عورت بن گئی ہوں۔
جس مزے کے لئے لڑکیاں ترستی ہیں وہ آج میں نے لے لیا ہے۔لڑکیاں بڑی شو مارتی ہیں کہ ہم نے سیکس کیا ہی، ہمارا بوائے فرینڈ ہے، میری سیل کھولی تو میں نے درد کے باوجود برداشت کیا۔ آج میں بھی کہہ سکتی ہوں۔
فیصل میری اس جگہ میں اتنا مزا آیا نہ کہ کیا بتاؤں۔
بہت سی باتیں مجھے نائلہ کے بارے میں پتہ چلیں جیسے وہ بھی کوئی دودھ کی دھلی نہیں ہے۔ اسکے معاشقے بھی بہت عام ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس بات کی تہہ میں پہنچ گئی۔ کنڈوم دیکھ کر سب سمجھ گئی۔
اس غیرمتوقع چدائی نے مجھے ہلکا پھلکا کر دیا۔ اب میرا دماغ ٹھیک طرح سے کام کر رہا تھا۔ مجھے نائلہ سے بچنے کے لئے اسکی کوئی کمزوری ڈھونڈنی تھی اور یہ کام سارا بخوبی کر سکتی تھی۔
میری پیاس بجھ چکی تھی سارا میں اب میرے لئے کوئی کشش باقی نہیں تھی، میرے لئے بس وہ ایک آپشن سے زیادہ نہ تھی۔ اب اگر وہ دیتی یا نہ دیتی مجھے فرق نہیں پڑتا۔ میں اسی جزبے سے سوچنے لگا۔
پہلے دن میں یہ سوچ کے نہیں آیا تھا کہ یہاں چودنے کو ملے گا۔ مگر اب سارا کے بعد میں اسی رخ پر سب لڑکیوں کو دیکھ رہا تھا۔

ہم اسی طرح باتیں کرتے رہے۔ دس بجے میں نہانے چل دیا اور واپسی پر ناشتہ کیا۔
وہ سونے چلی گئی اور یہ یقین دھانی کروا گئی کے وہ موقع کی تاک میں رہے گی۔

4 comments:

  1. 03025237678 ایسی خواتین جو سیکس کرنا چاہتی ہیں مگر کسی ﮈر کی وجہ سے نہیں کر سکتی وہ پورے اعتماد سے رابطہ کریں 03025237678

    ReplyDelete
  2. Add me girls for X what's app 00923401148960

    ReplyDelete