adv

Thursday, January 29, 2015

شہزادی صاحبہ کے ساتھ

میرا نام شاکر ہے میری عمر 32 سال کے قریب ہے
یہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے پہلے کی بات ہے ایک دن میرے کمرے میں تمام کمپیوٹرز خراب تھے اور مجھے کام کرنے کے لئے دوسرے کمرے میں جانا پڑا جہاں کام ختم کرنے کے بعد حاجی صدیق صاحب نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ کبھی ہمارے پاس بھی آکر بیٹھ جایا کریں میں نے کہا حاجی صاحب آپ چائے پلائیں تو میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں تو ان کو جیسے سانپ سونگ گیا اچانک ان کی میز کے دوسری طرف بیٹھی ایک لڑکی نے کہا سر چائے پلا دیں گے آپ بیٹھنے والی بات کریں اس کی بات سن کر میں حاجی صاحب کی ٹیبل پر بیٹھ گیا حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ شہزادی صاحبہ ہیں اور چند دن پہلے ہی آفس جوائن کیا ہے انہوں نے ایک معروف سیاسی شخصیت کا نام بھی لیا اور بتایا کہ یہ ان کی رشتہ دار ہیں اور ان کی سفارش کی بدولت ہی اس دفتر میں آئی ہیں میرے کان حاجی صاحب کی طرف اور نگاہیں شہزادی صاحبہ کی طرف تھی جو کسی بھی طرح سے شہزادی نہیں لگ رہی تھی بیس سال کے قریب عمر کی موٹے جسم کی مالک سانولے رنگ کی عام شکل وصورت کی مالک حجاب پہنے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی ٹیلی فون پر کینٹین میں چائے کا آرڈر دے رہی تھی اس کے جسم میں ایک ہی خوبی تھی کہ اس کے ممے بہت بڑے تھے کم از کم اڑتیس سائز کے ہوں گے چائے پیتے ہوئے مسلسل اس کے مموں کے بارے میں سوچتا رہا بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ایک قصبے سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں ایک سرکاری ہاسٹل میں رہتی ہے جس پوسٹ پر اس کو دفتر میں رکھا گیا ہے اس کے لئے اس کی کوالیفکیشن بھی پوری نہیں ہے ایک دن اس نے مجھے میرے موبائل پر کال کی اور کہا کہ اس کا بھائی گھر سے آرہا ہے اس کا ایک کام کسی جگہ پھنسا ہوا ہے اگر میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو کردو میں نے حامی بھر لی تین بجے کے قریب شہزادی صاحبہ اپنے بھائی کے ساتھ میرے کمرے میں آئی اور مجھے ایک فائل پکڑا دی میں نے فائل دیکھی تو پتا چلا کہ جس شخص نے یہ کام کرنا ہے وہ میرا ایک دوست ہے میں نے اس دوست کو فون کیا تو اس نے کہا کہ کام ہوجائے گا اور یہ کام واقعی دو دنوں بعد ہوگیا اس کے بعد شہزادی صاحبہ نے مجھے شکریہ کے لئے فون بھی کیا ایک دن میں کسی کام کے سلسلہ میں دوبارہ حاجی صاحب کے کمرے میں گیا تو حاجی صاحب موجود نہ تھے شہزادی صاحبہ نے مجھے بٹھایا اور چائے منگوالی اس دوران اس سے پندرہ بیس منٹ تک گفتگو ہوتی رہی اس نے بتایا کہ ہاسٹل میں اس کی کسی بھی لڑکی کے ساتھ اتنی زیادہ دوستی نہیں ہوئی روزانہ ہاسٹل جاکر وہ رات گئے تک بور ہوتی رہتی ہے میں نے اس کو مشورہ دیا کہ اس کے ہاسٹل کے قریب ہی ایک بڑا پارک ہے وہ وہاں شام کے وقت واک کے لئے چلی جایا کرے میں بھی اکثر شام کے وقت وہیں جاتا ہوں اس نے کہا کہ میرے ساتھ جانے کے لئے کوئی بھی نہیں ہوتا حالانکہ میرا دل بھی کرتا ہے کہ شام کو واک کیا کروں میں نے فوری طورپر خدائی خدمت گار بنتے ہوئے اپنی خدمات پیش کردیں کہ میں جس وقت پارک جاتا ہوں اس وقت وہ بھی آجایا کرے تو میں اس کو واپس ڈراپ کردیا کروں گا لیکن اس نے انکار کردیا تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب کمرے میں آگئے میں نے ان سے کام کے متعلق بات کی اور اپنے کمرے میں آگیا شام کے وقت پارک جارہا تھا کہ راستے میں شہزادی صاحبہ کا فون آگیا کہ شاکر صاحب میں آج واک کے لئے جانا چاہتی ہوں آپ کس وقت آئیں گے مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ چند گھنٹے پہلے ہی اس لڑکی نے مجھے ایک ٹکا سا جواب دیا تھا اور اب مجھے خود کہہ رہی ہے خیر میں نے اسے بتا یا کہ میں پارک تھوڑی دیر کے بعد پہنچ جاﺅں گا میں پارک پہنچا تو گیٹ پر ہی اس کے ساتھ ملاقات ہوگئی دونوں اکٹھے پارک میں گئے اور باتیں کرتے کرتے واک کرتے رہے اس دوران شہزادی صاحبہ نے بتایا کہ ان کے باپ ایک مذہبی جماعت کے ضلعی امیر ہیں اور ان کا گھرانہ بہت مذہبی ہے اس کے گھر والے اس کو دوسرے شہر میں ملازمت کے لئے نہیں آنے دیتے تھے مگر وہ ضد کرکے یہاں آئی ہے رات کو آٹھ بجے میں نے اس کو ہاسٹل چھوڑا اور خود گھر آگیا اگلے دن پھر شہزادی صاحبہ کا فون آگیا سات آٹھ دن تک میں نہ چاہتے ہوئے تھی اپنی خدمات شہزادی صاحبہ کو پیش کرتا رہااب روزانہ شہزادی صاحبہ مجھے دفتر میں ہی انٹر کام کے ذریعے پوچھ لیتیں کہ کس وقت پارک جانا ہے ایک دن میرے ایک کولیگ نے مجھے کہا کہ خوب عشق چل رہے میں نے اس سے پوچھا کہ کون سے عشق تو اس نے کہا کہ شہزادی صاحبہ کے ساتھ میں بہت پریشان ہوا اس دن میں نے واک کے دوران شہزادی کو کہا کہ میں کل سے تمہارے ساتھ نہیں واک کروں گا دفتر میں لوگ باتیں کررہے ہیں اس نے کہا کہ باتیں کرتے ہیں تو کرنے دو تم میرے ساتھ نہ ہوئے تو میں بھی واک نہیں کرسکوں گی میری روٹین خراب نہ کرو اس دن میں نے دل میں ”کچھ اور ہی“ سوچ لیا اور اس سے کہا کہ کل اتوار ہے اور دفتر سے چھٹی ہے کیوں نہ کہیں آﺅٹنگ پر چلیں اس نے فوراً حامی بھر لی میں اگلے دن صبح دس بجے کے قریب اس کے ہاسٹل چلا گیا اور اس کو گاڑی میں بٹھا کر سیدھا واہگہ بارڈر چلا گیا جہاں پر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ہوٹل بنا ہوا ہے اس کا مینجر میرا دوست ہے میں نے راستے سے اس کو فون کیا کہ میں آرہا ہوں اور میرے ساتھ دفتر کی ایک کولیگ ہیں جنہوں نے شام کو فلیگ سرمنی دیکھنی ہے شام تک کمرا چاہئے اس نے کہا کہ آجائیں ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کیا تو میں نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور شہزادی صاحبہ کو آکر پکڑ لیااور ان کو کسنگ شروع کردی شہزادی صاحبہ نے مجھے ہاتھ سے ہٹا دیا اور کہا کہ کیا کررہے ہیں یہ کوئی اچھی بات ہے میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تو کہنے لگی کہ یہ سب ناجائز ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مجھے بہت غصہ آیا میں نے اس کو زور زور سے دو تھپڑ رسید کردئےے اور کہا کہ روزانہ میرے ساتھ پارک میں واک کے لئے جاتی ہو وہ سب کچھ جائز ہے یہاں میرے ساتھ ایک کمرے میں ٹھہری ہو یہ سب کچھ جائز ہے روتے کہنے لگی کچھ بھی ہومیں یہ کام نہیں کروں گی میں نے کہا کہ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتی تو فوری طورپر یہاںسے چلی جائے میں اس کو واپس بھی نہیں لے جاسکتا یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل آیا اور مینجر سے اخبار لے کر دوبارہ کمرے میں آکر پڑھنے لگا پندرہ منٹ کے بعد شہزادی صاحبہ جو صوفے پر بیٹھی تھیں بیڈ پر میرے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگی اور کچھ نہیں مجھے صرف شرم آتی ہے یہ سن کر میں نے اس کو کہا کہ تم آنکھیں بند کرلو شرم نہیں آئے گی تو کہنے لگی کہ صرف کسنگ ہی کرنی ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں میں نے موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ میں نے اس کے ساتھ دوستی صرف اس کے مموں کی وجہ سے کی ہے یہ مجھے بہت پسند ہیں میں ان کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں تو کہنے لگی کہ ٹھیک ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیںمیں نے فوراً حامی بھر لی اور فوری طورپر اس کا حجاب اتارا اور اس کو کسنگ شروع کردی اس دوران پہلے تو وہ پتھر بنی رہی مگر تھوڑی دیر بعد میرا ساتھ دینے لگی دس پندرہ منٹ بعد میں نے اس کی قمیص اتاری تو کہنے لگی کمبل اوپر اوڑھ لو میں نے کمبل اوڑھ لیا اور اس کا بریزئیر بھی اتار دیا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کردیا اس دوران وہ کافی ہاٹ ہوگئی اور منہ سے اف ف ف ف ‘ام م م م م م ‘ س س س س س س کی آوازیں نکالنے لگی میں نے اس کی شلوار اتارنی چاہی تو اس نے پھر سے منع کردیا میں نے اس کو کہا کہ بہتر ہے آج مجھے منع نہ کرو میں نہیں چاہتا کہ تم سے زبر دستی کروں مگر تم نے مزاحمت کی تو میں زبردستی کروں گا اور یہ کام پھر بھی ہوجائے گا یہ بات سن کر اس نے مزاحمت ترک کردی اور میں نے اس کی شلوار اتار دی اس کے بعد میں نے کمبل بھی اوپر سے اتار دیا اس کے ممے بھی کیا ممے تھے میں اپنے ہاتھ اس کے جسم پر پھیر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی دیکھ رہا تھا وہ آہستہ آہستہ مچل رہی تھی اور میں اس کے جسم کو بغور دیکھ رہا تھا اس کے جسم پر دو جگہ تل تھے ایک دونوں مموں کے درمیان اور ایک پیٹ میں ناف کے قریب‘ اس نے ایک دو دن پہلے ہی ستر کے بال صاف کئے تھے چند منٹ میں ہی شہزادی صاحبہ آﺅٹ آف کنٹرول ہوگئیں اور مجھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور کہنے لگی شاکر کچھ کرو میں آج مر جاﺅں گی میں نے دوبارہ اس کی کسنگ شروع کردی اور اس کو مزید تڑپانے لگا وہ جنسی بلیوں کی طرح مجھے کاٹنے لگی میں نے اب اس کو زیادہ تڑپانا مناسب نہ سمجھا اوراپنے کپڑے اتار دیئے وہ میرا 8 انچ سے بھی بڑاہتھیار دیکھ کر اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیااور کہنے لگی شاکر یہ کیا کرنے لگے ہو تو میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش رہنے کی ہدایت کی میں نے اس کی کمر کے نیچے تکیہ رکھا اور ٹانگیں اوپر اٹھاکر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا ہتھیاراس کی چوت پر رکھ کراس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور ایک زور دار جھٹکے سے اس کو سارا کا سارا اس کی چوت میں دھکیل دیا اس کی چیخ میرے منہ میں ہی دب کر رہ گئی وہ مجھے دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کررہی تھی مگر کامیاب نہ ہوسکی میں اس کے اوپر ہی لیٹا رہا تھوڑی دیر بعد اس کی مزاحمت کم ہوئی تو میں نے اس کے منہ سے اپنا منہ پیچھے کیا اور اس کو کہا کہ کیا ہوا ہے تو کہنے لگی شاکر تم نے تو مجھے مار ہی ڈالا ہے اس کو فوری طورپر باہر نکالو میں نے کہا کہ اب تم کو تکلیف نہیں بلکہ مزہ آئے گا کہنے لگی مجھے ایسامزہ نہیں چاہئے تم اس کو باہر نکالو اس دوران وہ میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش بھی کرتی رہی مگر کامیاب نہ ہوسکی اب میں نے اپنے لن کو آہستہ آہستہ سے اندر باہر کرنا شروع کیا تو اس کو بھی مزا آنے لگا ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ فارغ ہوگئی مگر میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا اب اس کی چوت کافی گیلی ہوگئی تھی اور مجھے اس کو چودنے میں مزہ نہیں آرہا تھا اس لئے میں نے اپنا لن اس کی چوت سے باہر نکالا اور اس کی چوت بیڈ شیٹ سے صاف کی بیڈ شیٹ پر خون اور منی کے دھبے پڑ گئے تھے بیڈ شیٹ پر خون کے دھبے دیکھ کر وہ رونے لگی میں نے اس کو سمجھایا کہ پہلی بار ہر لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے تو وہ چپ ہوگئی گئی اس کے بار میں نے اس کو پھر سے چودنا شروع کردیا اب وہ پوری طرح میرا ساتھ دے رہی تھی اور جب بھی میں گھسا لگاتا وہ نیچے سے اچھل اچھل کر میرا ساتھ دیتی بیس منٹ کی چدائی کے بعد میں فارغ ہوگیا اور ساری منی اس کی چوت میں ہی چھوڑ دی اب وہ نڈھال ہوکر میرے ساتھ لپٹ گئی اس دوران وہ میرے لن کو مسلسل سہلاتی رہی کچھ ہی دیر کے بعد میں دوبارہ تیار ہوگیا میں نے اس کو کہا کہ ایک بار پھر سے یہ کام کرنا ہے تو اس نے انکار کردیا میں نے اسرار کیا تو وہ تیار ہوگئی اور کہنے لگی کہ آج میں اس کام کی انتہا کو پہنچناچاہتی ہوں میں نے اس کی چوت پر اپنا لن رکھا تو چیخنے لگی کہ اب فوری طورپر لن چوت کے اندر ڈال دو میں نے ایسا ہی کیا اور تقریباً پندرہ منٹ تک اس کی چدائی کرتا رہا اب کی بار پھرمیں اس کی چوت میں ہی چھوٹ گیا اور اس کے اوپر ہی لیٹ گیا وہ بھی مکمل طورپر نڈھال ہوچکی تھی کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد اس نے باتیں شروع کردیں اور کہنے لگی کہ اگر یہ بات میرے گھر والوں کو پتا چل گیا تو وہ مجھے جان سے مار دیں گے اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے فیصل آباد کے ایک وکیل کے ساتھ اس کی زبردستی منگنی کردی ہے اس نے بتایا کہ اس کی چار بہنیں ہیں جن میں سے دو بڑی بہنوں کی شادی ہوچکی ہے جبکہ دو اس سے چھوٹی ہیں جبکہ تین بھائی ہیں اس کا باپ ابھی تک اس کی والدہ کے کردار پر شک کرتا ہے اور اکثر اوقات اس کو مارتا پیٹتا بھی ہے مگر وہ اپنے باپ کے سامنے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتی اس نے بتایا کہ اس کا باپ ان کی کسی بھی سہیلی کو گھر نہیں آنے دیتا اور ہی ان کو کسی سہیلی کے گھر میں جانے کی اجازت ہوتی ہے جب میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے باپ نے اس کو لاہور میں جاب کرنے کی اجازت کیسے دے دی تو اس نے کہا کہ اس نے اپنی منگنی کے بعد احتجاج کے طورپر زہر کھا لیا تھا گھر والے اسے ہسپتال لے گئے ڈاکٹروں نے اس کی جان بچالی جب تندرست ہوکر گھر گئی تو اس نے گھر والوں سے کہا کہ وہ جاب کرنا چاہتی ہے پہلے انہوں نے انکار کردیا مگر جب میں نے دوبارہ زہر کھانے کی دھمکی دی تو انہوں نے اجازت دے دی اس نے بتایا کہ اس کاباپ اتنا شکی ہے کہ ہر روز ہاسٹل فون کرکے اس کے بارے میں پوچھتا ہے کہ اس کا میل جول کن لڑکیوں کے ساتھ ہے وہ دفتر سے کب آتی ہے اور کب جاتی ہے اس کے بعد ہم دونوں نے اکٹھے غسل کیا اور میں اس کو شام سے پہلے ہی ہاسٹل چھوڑ آیا اس کے بعد میری اس کے ساتھ ہرہفتے چدائی ڈیٹ ہونے لگی اس دوران اس کا حوصلہ کافی حد تک بڑھ گیا ہم دونوں ایک بار مری بھی گئے جہاں میں نے اس کی چدائی کی ویب کیم کے ذریعے فلم بھی بنا لی وہ ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے جبکہ اس نے ہاسٹل میں جاکر اپنی ایک دوست جمیلہ جو ایک سرکاری محکمے ہے کو میرے بارے میں بتایا تو اس کو بھی مجھ سے ملنے کا اشتیاق ہوا میں نے اس کی بھی چدائی کی جبکہ چند ماہ کے بعد شہزادی صاحبہ کی شادی ہوگئی شہزادی صاحبہ کی والدہ کے ساتھ بھی مجھے ہم بستری کا موقع ملا اس کی کہانی میں ایک دور روز میں لکھ کر سب کے ساتھ شیئر کروں گا ابھی بھی اس کی ای میلز ‘ ایس ایم ایس اورفون مجھے آتے رہتے ہیں اس کی ای میلز اور ایس ایم ایس کا ایک خزانہ میرے پاس محفوظ ہے اگر کوئی اچھا دوست ملا تو اس کے ساتھ یہ بھی شیئر کرسکتا ہوں یہاں میں ایک بات بتانا بھول گیا کہ شادی سے چند روز پہلے اس نے مجھے بتایا کہ اس کو مینسز نہیں ہوئے جب ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ حاملہ ہوچکی ہے میں نے اس کو حمل گرانے کا مشورہ دیا مگر وہ نہیں مانی ابھی چند روز قبل اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا ہے اس نے بتایا کہ وہ بیٹا میری چدائی کا نتیجہ ہے اس نے مجھے اس کی تصاویر بھی ایم ایم ایس کی ہیں۔

1 comment: