چوہدری بختیار جدی پشتی رئیس تھا اور اس کے شوق بھی وہی تھے جو عام طور پر رہیسوں کے ہوتے تھے۔ اس کا باپ اس کے ترکے میں 50 مربعے زمین چھوڑ کر مرا تھا۔
اس کی بہنیں شادی کی عمر گزار کر گھر میں بیٹھی تھیں،جائداد کے حصے بخرے نہ ہوں اسی لئے وہ کبھی بیاہی ہی نہ گئی تھیں۔
بلقیس اس کی بیوی بھی ایک زمیندار خاندان سے تھی جو صرف اسی وقت کام آتی تھی جب چوہدری کو اپنا غصہ کسی عورت پر نکالنا ہوتا تھا۔ وہ بیچاری چوہدری کی مار کھاتی اور اسے اپنا فرض سمجھ کر چپ ہو رہتی۔
چوہدری عیاش طبع تو تھا ہی ساتھ میں ظالم بھی تھا۔
آئے روز لاہور اور گوجرانوالا کے بدنام کوچوں سے رنڈیاں آتیں اور ہزار بار کے بکے ہوئے سکوں کو کسی نئے سکے سے بھی زیادہ دام میں بیچتیں۔
اس کی رعایا میں سو کے قریب کمی خاندان تھے جو کئی نسلوں سے اس کے خاندان کی چاکری کر رہے تھے۔ چوہدری ان کو بس ان دیتا کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا دباتا کہ بس جان اٹکی رہے۔
یہ کمی اپنی بہو بیٹیاں چوہدری کے بستر پر سلانا اپنے لئے خوش بختی سمجھتے۔
ادھر کسی کی بیٹی تیرہواں سن پار کرتی اور اس کی شلوار میں خون کی پہلی بوند پڑتی تو پاکی نہاتے ہی اس کا باپ اسے چوہدری کے بستر تک چھوڑ آتا۔
اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس کی شامت آ جاتی، اس کی بہو بیٹیوں پر چوہدری کے کتے سب کے سامنے ٹوٹ پڑتے۔
اگر کوئی اور چوہدری سے پہلے کسی لڑکی کو جھوٹا کر دیتا تو اس لڑکی پر سارا گاؤں باری باری سوار ہوتا، اس وقت تک جب تک وہ زندگی سے آزاد نہ ہو جاتی۔
گاؤں کے لوگوں میں غیرت اور عزت جیسے لفظ صرف چوہدریوں کے لئے تھے۔
چوہدری کبھی بھی کسی کو طلب کر لیتا اور کسی کو اپنے بستر پر لے جاتا۔
یہ سب کرنے کے لئے اسے کسی سے چھپنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اسے رعایا پر حکومت کرنے کا گر سمجھا جاتا تھا۔
بلقیس اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ تھی،اس نے یہی سب اپنے گھر بھی دیکھا تھا۔
چوہدری ایک دن ایک غریب لڑکی کو لایا اور ایک کمرے میں اسے زبردستی چودنے لگا۔ لڑکی کی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا۔
بلقیس اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ گئی، لڑکی چوہدری کے بھاری وجود کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔ کم خوراک اور سخت محنت نے اسے اتنا موقع ہی نہ دیا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی گوشت آتا۔ چوہدری شراب کے نشے میں اس کی چوت پھاڑنے حد تک مار رہاتھا۔ بلقیس کچھ لمحے تو یہ ننگا ناچ دیکھتی رہی پھر آ گئی۔
لڑکی کی چیخیں اب بند ہو گئی تھیں، شاید وہ درد سے بیگانہ گئی تھی یا ہوش سے۔ ایک ملازمہ اندر گئی اور ادھ مری لڑکی کو ایک چادر میں لپیٹ کر اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔
اس لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کے کنوارے خون سے سنے چند لال نوٹوں پر جھپٹا،نیم بےہوش بیٹی باپ کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اپنی پہلی کمائی پر دل ہی دل میں نازاں ہوئی۔
بلقیس کو اپنی بڑی نند نصرت جو تیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھی وہ اپنے کمرے ہی مل گئی۔ اس نے بلقیس کو
بلا لیا۔
نصرت بولی: کی ہویا بھرجائی، آج تجھے نیند نہیں آئی۔
بلقیس : نیند تو شاید آ جاتی مگر اس نمانی کی چیخوں نے سونے نہ دیا۔
نصرت ہنسی: وے جھلی نہ ہو تو یہ کوئی نویں گل ہے کیا۔
بلقیس: نویں تو نہیں بس آج عجیب سا درد ہوا تھا مجھے۔
نصرت بولی: کیسا درد بھرجائی کھل کے بول۔
بلقیس: رہن دے وڈی باجی تو میری چنتا نہ کر سو جا۔
نصرت: وے بھلیے لوکے میں نے سو کے کیا کر لینا تو بیٹھ اور بتا۔
بلقیس: باجی مجھے اج ایک عجیب سا درد ہویا کہ چوہدری صیب میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتا۔
نصرت: تیرے ساتھ مطلب، تو تو اس کی زنانی ہے، تیرے ساتھ ایسا کیوں کرے گا۔
بلقیس: کنا ویلے ہو گیا چوہدری نے مجھے ھاتھ نہیں لگایا ویاہ کے بعد تو بس وہی کمی کمیں عورتیں یا رنڈیاں ہی اس کے ساتھ سوتی ہیں۔ اج میرے من میں ہوک اٹھی کہ کنا چنگا ہوتا کہ اس نمانی کے بدلے میں چیخ رہی ہوتی۔چوہدری بھلے درد دیتا پر دیتا تو صحیح۔
نصرت نے گہری سانس لی اور بولی: بھرجائی یہ جو مرد ہوتا ہے نا اسے اپنا نالہ تو کھلا پسند ہے مگر گھر کی عورتوں کا نالہ اسے کسا ہوا چاہئیے۔ اپنے لئے تو سارے عورتیں جائز ہیں پر اپنی عورت کے لئے سب حرام۔ جس آگ میں تو سال سے جل رہی ہے میں اٹھارہ سال سے جل رہی ہوں۔
جو درد تجھے اج ہویا ہے وہ مجھے اٹھارہ سال پہلے ہوتا تھا جب کسی نمانی کی چیخیں نکلتی تو میں سوچتی کہ کوئی میری بھی یوں چیخیں نکالے۔ جب کسی کو جھوٹا چوہدری کو کھلانے کی سزا ملتی تو میں روتی کاش اس گاؤں کا ہر مرد میرے اوپر چڑھ ڈورے، میں مرد کی نیچے سے ہی مر جاؤں۔
بلقیس یہ سب سن کے حیران تھی کہ اس کی نند اسی دور سے گزر چکی ہے۔
نصرت بولی: میری اگ تو بجھ گئی ہے تجھے تو اٹھارواں لگا ہے تیری شلوار تو ابھی تر ہے تو اس اگ میں کیوں جلے۔
بلقیس: کیا مطلب وڈی باجی۔
نصرت: ویکھ میرا ویاہ ہوتا تو اج تیرے جتنی میری دھی ہوتی، مرد کی اگ پہ تو قطرے گرتے رہتے ہیں عورت کی اگ اسے آپ بجھانی پڑتی ہے۔ اگلا بوہا(دروازہ) بند ہوے تے پچھلی کھڑکی کھول لینی چاہی دی ہے۔
بلقیس:مگر۔۔ ۔ ۔
نصرت: اگر تو اس اگ کو پالتی رہی تو اک دن یہ تجھے ساڑ دے گی، چوہدری کا کیا ہے نویں زنانی آ جائے گی، تجھے مرجھانا نہیں ہے بلکہ ایس کو نال نال بجھانا بھی ہے۔ بانی گرتا رہے تے زمین بنجر نہیں ہوندی۔
بلقیس: لیکن اگر کسی کو پتہ لگ فیر۔
نصرت: فیر کی روز روز مرنے سے اک واری چنگا۔
بلقیس کسی حد تک مطمئن ہو گئی تھی مگر ڈر بھی رہی تھی۔
بلقیس: پر یہ ہو گا کیسے۔
نصرت: ویسے جیسے چوہدری کڑی لاتا ہے تو منڈے لے ائے گی۔
بلقیس: مگر کیسے
نصرت: تو مجھ پہ چھوڑ دے، پرسوں کی رات چوہدری کے ڈیرے پہ کنجریاں ناچیں گی، چوہدری ویلے سے نہیں مڑے گا، تو بس تیار رہنا۔
بلقیس جو شاید پچھلے سوا سالہ شادی شدہ زندگی میں ایک دو بار چدی تھی اب اس آگ کے ھاتھوں بے چین ہو گئی تھی۔
اس کی بہنیں شادی کی عمر گزار کر گھر میں بیٹھی تھیں،جائداد کے حصے بخرے نہ ہوں اسی لئے وہ کبھی بیاہی ہی نہ گئی تھیں۔
بلقیس اس کی بیوی بھی ایک زمیندار خاندان سے تھی جو صرف اسی وقت کام آتی تھی جب چوہدری کو اپنا غصہ کسی عورت پر نکالنا ہوتا تھا۔ وہ بیچاری چوہدری کی مار کھاتی اور اسے اپنا فرض سمجھ کر چپ ہو رہتی۔
چوہدری عیاش طبع تو تھا ہی ساتھ میں ظالم بھی تھا۔
آئے روز لاہور اور گوجرانوالا کے بدنام کوچوں سے رنڈیاں آتیں اور ہزار بار کے بکے ہوئے سکوں کو کسی نئے سکے سے بھی زیادہ دام میں بیچتیں۔
اس کی رعایا میں سو کے قریب کمی خاندان تھے جو کئی نسلوں سے اس کے خاندان کی چاکری کر رہے تھے۔ چوہدری ان کو بس ان دیتا کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا دباتا کہ بس جان اٹکی رہے۔
یہ کمی اپنی بہو بیٹیاں چوہدری کے بستر پر سلانا اپنے لئے خوش بختی سمجھتے۔
ادھر کسی کی بیٹی تیرہواں سن پار کرتی اور اس کی شلوار میں خون کی پہلی بوند پڑتی تو پاکی نہاتے ہی اس کا باپ اسے چوہدری کے بستر تک چھوڑ آتا۔
اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو اس کی شامت آ جاتی، اس کی بہو بیٹیوں پر چوہدری کے کتے سب کے سامنے ٹوٹ پڑتے۔
اگر کوئی اور چوہدری سے پہلے کسی لڑکی کو جھوٹا کر دیتا تو اس لڑکی پر سارا گاؤں باری باری سوار ہوتا، اس وقت تک جب تک وہ زندگی سے آزاد نہ ہو جاتی۔
گاؤں کے لوگوں میں غیرت اور عزت جیسے لفظ صرف چوہدریوں کے لئے تھے۔
چوہدری کبھی بھی کسی کو طلب کر لیتا اور کسی کو اپنے بستر پر لے جاتا۔
یہ سب کرنے کے لئے اسے کسی سے چھپنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اسے رعایا پر حکومت کرنے کا گر سمجھا جاتا تھا۔
بلقیس اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ تھی،اس نے یہی سب اپنے گھر بھی دیکھا تھا۔
چوہدری ایک دن ایک غریب لڑکی کو لایا اور ایک کمرے میں اسے زبردستی چودنے لگا۔ لڑکی کی چیخوں سے پورا گھر گونج رہا تھا۔
بلقیس اٹھ کر کمرے کے دروازے پر آ گئی، لڑکی چوہدری کے بھاری وجود کے سامنے کچھ بھی نہ تھی۔ کم خوراک اور سخت محنت نے اسے اتنا موقع ہی نہ دیا تھا کہ اس کے جسم پر کوئی گوشت آتا۔ چوہدری شراب کے نشے میں اس کی چوت پھاڑنے حد تک مار رہاتھا۔ بلقیس کچھ لمحے تو یہ ننگا ناچ دیکھتی رہی پھر آ گئی۔
لڑکی کی چیخیں اب بند ہو گئی تھیں، شاید وہ درد سے بیگانہ گئی تھی یا ہوش سے۔ ایک ملازمہ اندر گئی اور ادھ مری لڑکی کو ایک چادر میں لپیٹ کر اس کے باپ کے حوالے کر دیا۔
اس لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کے کنوارے خون سے سنے چند لال نوٹوں پر جھپٹا،نیم بےہوش بیٹی باپ کی آنکھوں میں چمک دیکھ کر اپنی پہلی کمائی پر دل ہی دل میں نازاں ہوئی۔
بلقیس کو اپنی بڑی نند نصرت جو تیس کا ہندسہ عبور کر چکی تھی وہ اپنے کمرے ہی مل گئی۔ اس نے بلقیس کو
بلا لیا۔
نصرت بولی: کی ہویا بھرجائی، آج تجھے نیند نہیں آئی۔
بلقیس : نیند تو شاید آ جاتی مگر اس نمانی کی چیخوں نے سونے نہ دیا۔
نصرت ہنسی: وے جھلی نہ ہو تو یہ کوئی نویں گل ہے کیا۔
بلقیس: نویں تو نہیں بس آج عجیب سا درد ہوا تھا مجھے۔
نصرت بولی: کیسا درد بھرجائی کھل کے بول۔
بلقیس: رہن دے وڈی باجی تو میری چنتا نہ کر سو جا۔
نصرت: وے بھلیے لوکے میں نے سو کے کیا کر لینا تو بیٹھ اور بتا۔
بلقیس: باجی مجھے اج ایک عجیب سا درد ہویا کہ چوہدری صیب میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں کرتا۔
نصرت: تیرے ساتھ مطلب، تو تو اس کی زنانی ہے، تیرے ساتھ ایسا کیوں کرے گا۔
بلقیس: کنا ویلے ہو گیا چوہدری نے مجھے ھاتھ نہیں لگایا ویاہ کے بعد تو بس وہی کمی کمیں عورتیں یا رنڈیاں ہی اس کے ساتھ سوتی ہیں۔ اج میرے من میں ہوک اٹھی کہ کنا چنگا ہوتا کہ اس نمانی کے بدلے میں چیخ رہی ہوتی۔چوہدری بھلے درد دیتا پر دیتا تو صحیح۔
نصرت نے گہری سانس لی اور بولی: بھرجائی یہ جو مرد ہوتا ہے نا اسے اپنا نالہ تو کھلا پسند ہے مگر گھر کی عورتوں کا نالہ اسے کسا ہوا چاہئیے۔ اپنے لئے تو سارے عورتیں جائز ہیں پر اپنی عورت کے لئے سب حرام۔ جس آگ میں تو سال سے جل رہی ہے میں اٹھارہ سال سے جل رہی ہوں۔
جو درد تجھے اج ہویا ہے وہ مجھے اٹھارہ سال پہلے ہوتا تھا جب کسی نمانی کی چیخیں نکلتی تو میں سوچتی کہ کوئی میری بھی یوں چیخیں نکالے۔ جب کسی کو جھوٹا چوہدری کو کھلانے کی سزا ملتی تو میں روتی کاش اس گاؤں کا ہر مرد میرے اوپر چڑھ ڈورے، میں مرد کی نیچے سے ہی مر جاؤں۔
بلقیس یہ سب سن کے حیران تھی کہ اس کی نند اسی دور سے گزر چکی ہے۔
نصرت بولی: میری اگ تو بجھ گئی ہے تجھے تو اٹھارواں لگا ہے تیری شلوار تو ابھی تر ہے تو اس اگ میں کیوں جلے۔
بلقیس: کیا مطلب وڈی باجی۔
نصرت: ویکھ میرا ویاہ ہوتا تو اج تیرے جتنی میری دھی ہوتی، مرد کی اگ پہ تو قطرے گرتے رہتے ہیں عورت کی اگ اسے آپ بجھانی پڑتی ہے۔ اگلا بوہا(دروازہ) بند ہوے تے پچھلی کھڑکی کھول لینی چاہی دی ہے۔
بلقیس:مگر۔۔ ۔ ۔
نصرت: اگر تو اس اگ کو پالتی رہی تو اک دن یہ تجھے ساڑ دے گی، چوہدری کا کیا ہے نویں زنانی آ جائے گی، تجھے مرجھانا نہیں ہے بلکہ ایس کو نال نال بجھانا بھی ہے۔ بانی گرتا رہے تے زمین بنجر نہیں ہوندی۔
بلقیس: لیکن اگر کسی کو پتہ لگ فیر۔
نصرت: فیر کی روز روز مرنے سے اک واری چنگا۔
بلقیس کسی حد تک مطمئن ہو گئی تھی مگر ڈر بھی رہی تھی۔
بلقیس: پر یہ ہو گا کیسے۔
نصرت: ویسے جیسے چوہدری کڑی لاتا ہے تو منڈے لے ائے گی۔
بلقیس: مگر کیسے
نصرت: تو مجھ پہ چھوڑ دے، پرسوں کی رات چوہدری کے ڈیرے پہ کنجریاں ناچیں گی، چوہدری ویلے سے نہیں مڑے گا، تو بس تیار رہنا۔
بلقیس جو شاید پچھلے سوا سالہ شادی شدہ زندگی میں ایک دو بار چدی تھی اب اس آگ کے ھاتھوں بے چین ہو گئی تھی۔
کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی گانڈ مروانا چاہے تو مجھے میل کر میرا ای میل ہےjeetjano254@gmail.com
ReplyDelete